8 فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد پیپل??پا??ٹی اور مسلم لیگ ن کا اتحاد اقتدار میں موجود ہے لیکن راستے جدا جدا ہیں، پیپل??پا??ٹی کو آئینی عہدوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔
پاور شیئرنگ، قانونی معاملات میں بلاول بھٹو زرداری اور گورنر پنجاب سلیم حیدر کے تخفظات بھی کام نہ آئے۔
حکومت پنجاب کیساتھ دونوں جماعتوں کے درمیان کوآرڈنیشن نہیں ہے، نئے سال 2025ء میں بھی پاور شیئرنگ کے معاملے میں مسلم لیگ ن کے حوالے سے پرامید نہیں۔
8 فروری کے جنرل الیکشن کے بعد پیپل??پا??ٹی اور ن لیگ نے وفاق میں اتحاد کیا جس کے تحت پیپل??پا??ٹی نے صدر، چیئرمین سینیٹ اوردیگر آئینی عہدے حاصل کیے جبکہ ن لیگ نے وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالی۔
یہ شراکتِ اقتدار پیپل??پا??ٹی کیلیے عہ??وں کی سطح پر کامیاب رہی لیکن عملی طور پر حکومتی پالیسیوں پر ان کا اثرمحدود رہا پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ن لیگ کے ساتھ پاور شیئرنگ قانون سازی کیلیے اعتماد نہیں لیا جاتا۔
بلاول بھٹو زرداری نے اس کا اظہار وزیر اعظم شہبازشریف سے بھی کیا کہ ن لیگ ان کی توقعات پر پورا نہیں اتری، منصب سنبھالنے کے بعد صدر مملکت آصف علی زرداری دو بار جبکہ بلاول بھٹو پانچ بار لاہور آئے۔
پاور شیئرنگ کے حوالے س?? ن ??یگ اور پیپل??پا??ٹی کے کئی اجلاس بے سود رہے، گورنر پنجاب سلیم حیدرنے صوبہ میں پیپل??پا??ٹی کی لڑائی لڑتے ہوئے پاور شیئرنگ حوالے س?? ن ??یگ سے علیحدگی کا بھی کہہ دیا اور بلاول بھٹو زرداری کو بھی حالات سے آگاہ کردیا۔
بلاول بھٹو زرداری کے کہنے پر وزیراعظم شہبازشریف نے کمیٹی بنادی لیکن تاحال رزلٹ نہ آسکا۔